آئیے، قائد اعظم کی "رسم" سالگرہ منا کر قائد اعظم کو شرمندہ کریں*

    اردو میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
 

English Content


*آئیے، قائد اعظم کی "رسم" سالگرہ منا کر قائد اعظم کو شرمندہ کریں*

بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات پر ایسی تیسی پھیرنے اور ایمان، اتحاد اور تنظیم کے اصولوں کو اپنی بے اصولی اور احسان فراموشی سے تہس نہس کرنے والی بے ہنگم قوم نہایت "تزک و احتشام" سے ان کی سالگرہ منانے کی "رسم" ادا کر رہی ہے۔

آج ایک دن کے لیے قائد اعظم کی تقاریر، خطابات، ان کی شخصیت، سیاست، ایمان داری، دیانت داری اور اصول پسندی کے واقعات کو سیلن زدہ اور گرد آلود الماریوں سے جھاڑ پونچھ کر نکالا جائے گا اور سماجی ذرائع ابلاغ پر ان کی مسلسل گردان اور عظیم قائد کی روح سے دھوکا دہی کے بعد اگلے دن یہ عظیم قوم نئے جوش و جذبے کے ساتھ قائد کی عزت "تار تار" کرنے میں مصروف ہو جائے گی۔

ایک اندازے کے مطابق قائد کے بنائے ہوئے اس سقوط زدہ ملک میں سب سے زیادہ بدعنوانی قائد اعظم کی تصویر کے نیچے کھڑے ہو کر قائد کی تصویر والے کاغذی چیتھڑوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یہ واقعہ بھی قائد کے ملک میں "سنہرے حروف" سے لکھا جائے گا کہ مارچ 2008ء میں اقبال کے "شاہینوں" نے قائد اعظم کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے آنے والی قوم کی ایک بیٹی کی عزت تار تار کر کے قائد کو پاکستان بنانے پر ایسے "منفرد انداز" میں "خراج تحسین" کیا کہ قائد کی روح بھی تڑپ اٹھی ہو گی اور اپنے پاکستان بنانے کے اقدام پر یقینا شرمندہ ہوئی ہو گی۔

یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ہم نے قائد کا احسان ان کی ایمبولینس خراب کر کے اتارا اور دوسری مرتبہ یہ احسان سقوط مشرقی پاکستان کی شکل میں پاکستان کو توڑ کر اتار دیا۔ اس کے علاؤہ آئین بنانے والوں کو سولی پر چڑھا کر، مقبول عوامی قیادتوں کو کبھی جلاوطن، کبھی سکیورٹی رسک، کبھی نا اہل اور کبھی سرراہ قتل کر کے اور صدارتی انتخاب میں قائد اعظم کی پیاری بہن فاطمہ جناح جیسی امیدوار کو "عبرت ناک" شکست سے دو چار کر کے بھی ہم نے قائد اعظم کا احسان اتارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

آج ہم جس قائد اعظم کی سالگرہ منا رہے ہیں، انہوں نے ایسا پاکستان تو نہیں چاہا تھا کہ اس پاک سرزمین میں حکیم محمد سعید، صلاح الدین یوسف، حسن ناصر، غلام حیدر وائیں، سلمان تاثیر،  مشعل خان، قطب رند اور پریانتھا کمارا جیسے لوگ تاریک راہوں میں مر جائیں، ساحر لدھیانوی، جوگندر ناتھ منڈل، ڈاکٹر حمیداللہ، قرۃ العین حیدر، استاد بڑے غلام علی خان، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر عبدالسلام اور عاطف میاں جیسے لوگ ملک چھوڑ جائیں اور جی ایم سید اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے لوگ نظر بندی کی حالت میں زندگی کی قید سے آزاد ہو جائیں۔

اگر قائد کو اندازہ ہوتا کہ ان کے بعد ان کے بنائے ہوئے اس ملک میں حیدر بخش جتوئی، رسول بخش پلیجو، جام ساقی جیسے انقلابی محکوم عورتوں سے مفلوک بچوں تک سب کو سیاسی بیداری کے دائرے میں لانے کی کوشش میں حاشیوں پر دھکیلا جائے گا اور فیض احمد فیض، سید سجاد ظہیر، عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری، ولی خان، حسن ناصر، نذیر عباسی، حمید بلوچ، نواب نوروز خان، باچا خان، اکبر بگٹی جیسے لوگوں کو "غدار" سمجھا جائے گا تو وہ کبھی بھی ایسے ملک کے حصول کے لیے جدو جہد آزادی کی "زحمت" ہی نہ کرتے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ ملک اظہر من الشمس قانون اور کردار کی طاقت سے حاصل کیا تھا اور جب اس وقت کے ایک فوجی افسر نے قائد کو نوزائیدہ مملکت کی سیاست میں فوج کے "آئینی" کردار پر مشورہ دیا تو قائد نے نہ صرف اسے بری طرح جھڑک دیا بلکہ پاک فوج کی ہائی کمان کو حکم دیا تھا کہ آئندہ کبھی بھی اس فوجی افسر کو اعلی عہدے پر تعینات نہ کیا جائے لیکن اس عظیم قائد کے آنکھیں بند کرنے ہی کی دیر تھی کہ وہی فوجی افسر دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہوا فیلڈ مارشل کے عہدے پر پہنچا اور آئین و قانون کو تاخت و تاراج کر کے رکھ دیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہماری قوم اور ہمارے وزیر اعظم اب بھی ان کے دور حکومت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ اب تو ملک کا وہ حال ہو چکا ہے کہ شہر خوباں کی مرصع و مسجع شاہراہ دستور پر سولہ سنگھار کیے جھانجھریں چھنکاتے سبز آئین میں آرٹیکل 19 کی شمولیت کے باوجود دستاویزات کو "مقدس" اور اداروں کو "حساس" رکھا جاتا ہے، اس حقیقت کے باوجود بھی جس مملکت میں بعض ادارے "حساس" ہو جائیں وہاں کے عوام "بے حس" ہو جایا کرتے ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ "پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہو گا"۔ ان کے فرمان پر ہم نے اس طرح عمل کیا کہ نوزائیدہ ریاست کو نظریاتی چولہ پہنا کر اس کو اسلام کی تجربہ گاہ بنا دیا۔ یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ یا مقامات مقدسہ کے متبرک ناموں کو ہوٹلوں، دکانوں، سکولوں، مدارس اور مساجد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام کی اس تجربہ گاہ کے ہر شہر میں تمہیں بسم اللہ ہوٹل، مدینہ کلاتھ ہاؤس، الجنت رابڑی، غزالی کلینک، ابن سینا پبلک سکول اور فارابی کالج جیسی اسلام کی "نشانیاں" ضرور نظر آئیں گی البتہ اسلام کہیں بھی نظر نہیں آئے گا۔

حسن نثار سچ ہی تو کہتا ہے کہ اسلام کا قلعہ دراصل اسلام کا "قلع قمع" ہے۔ ہمارے دین کی آفاقی تعلیمات میں صفائی کو نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے لیکن قائد کے پاکستان میں ریا کاری، منافقت، قبضہ گیری، چمچہ گیری، جھوٹ، نا انصافی، ظلم، لاقانونیت، رشوت، عصبیت، کفر سازی، منشیات، گدی نشینی اور جہالت سے لے کر گندہ پانی، جعلی دودھ، غلیظ خوراک، گدھوں کے گوشت کی ترسیل تک اسلام کی اس انوکھی تجربہ گاہ میں "ہاتھ کی صفائی" کو ہی مکمل ایمان کا درجہ حاصل ہے۔

قائد کے بنائے اس عظیم اسلامی ملک کی 3.6 فیصد آبادی غیر مسلم اور اقلیت ہے لیکن پورے ملک میں 3.6 فیصد آبادی کا کوئی فرد گریڈ 22 کا افسر نہیں۔ یہاں فوج، نیوی، ایئرفورس، پولیس، عدلیہ، پی اے ایس اور فارن سروس کی پہلی قطار میں بھولے سے بھی کوئی غیر مسلم نہیں ملے گا۔ یہاں کا ہر غیر مسلم انجینئر، ڈاکٹر، آئی ٹی ایکسپرٹ اور سائنس دان خوف سے باہر چلا جاتا ہے اور پھر پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھتا۔ گزشتہ 74 برس میں یہاں غیر مسلموں کی کوئی نئی عبادت گاہ نہیں بنی۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں یہودیوں، ہندوؤں اور سکھوں کی جو عبادت گاہیں رہ گئیں ہم مسلمانوں نے ان پر قبضہ کر کے وہاں شاپنگ مال اور ان کے قبرستانوں پر مکانات بنا دیے۔

قائد اعظم کے پاکستان میں عدم برداشت اور مذہبی ٹھیکیداری سے پاکستانی پرچم کا سفید حصہ ایک ایسی کھڑکی میں تبدیل ہو گیا ہے جہاں سے جلد یا بدیر ہر اقلیتی شہزاد مسیح اور اس کی حاملہ بیوی شمع کو چھلانگ لگانی پڑتی ہے۔

قائد اعظم نے یہ ملک انصاف، قانون اور اسلام کی بنیاد پر بنایا تھا، لیکن اب اس ملک میں انصاف کے حصول کے لئے شہری کے پاس حضرت نوح علیہ السلام کی عمر، حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر اور قارون کی دولت لازمی ہونی چاہیئے۔

قائد اعظم نے یہ ملک عام لوگوں کے لیے بنایا تھا لیکن اب پرویز مشرف، ثاقب نثار، نواز شریف، فیصل واڈا اور آصف زرداری جیسی "اجلی" شخصیات ہی پاکستان کا حقیقی" اور "روشن" چہرہ ہیں، جن کو اس "ماں" جیسی ریاست اور باپ جیسی حکومت کے "دامادوں" کا درجہ حاصل ہے۔ ورنہ قائد اعظم کے اس پاکستان میں حرماں نصیب سیاہ مقدر عام لوگ تو محض تاریخ کا "چھان بورا" ہوتے ہیں۔ نادرا کے جاری کردہ شناختی چیتھڑے سے جن کی کوئی اوقات نہیں۔ کوئی حیثیت نہیں۔
#Nawaeuch #نوائےاوچ


Post a Comment

Previous Post Next Post