English
پیمانوں کی کہانی
انسان، حیوان سے مختلف ہے۔ یہ سب ہی جانتے ہیں اور انسان کی بات کرنے، سوچنے اور محسوس کرنے کی ان صلاحیتوں کی اکثر بات کرتے ہیں جو انسانوں کو حیوانوں سے ممتاز کرتی ہیں لیکن ایک اور خصوصیت بھی ہے جو قدرت نے انسان میں پیدا کی ہے اور حیوان میں نہیں۔ یہ وہ شعور ہے جس کی بنیاد پر انسان ناپ تول کا فرق کر سکتا ہے۔ بچے کو جیسے ہی سمجھ آتی ہے وہ کم اور زیادہ کے فرق کو سمجھنے لگتا ہے اور جیسے جیسے اس کے شعور میں پختگی اور وسعت آتی جاتی ہے ویسے ہی ویسے وہ ناپ تول کا باریک فرق کرنے لگتا ہے۔
یہ شعور اندازے سے شروع ہوتا ہے۔ لفظ ''پیمانے'' میں بھی اندازہ کرنے کے معنی موجود ہیں اور ناپ تول کا یہ سارا کاروبار بھی دراصل اندازے سے ہی شروع ہوا تھا جیسے مٹھی بھر چاول، کٹوری بھر دال، چٹکی بھر نمک سے یہ بات چلی تھی۔ ابتدا میں انسان نے اپنے آس پاس موجود ، بنے بنائے سانچوں کو اپنے ناپ تول کی بنیاد بنایا، جیسے اس نے لمبائی اور قدم کے فاصلے کو اپنا معیار بنایا۔ پھر ان کی مدد سے کم از کم ناپ سے زیادہ سے زیادہ دوری کے ناپ کے لیے مختلف درجے مقرر کیے۔
ہندوستان میں چوڑائی کا سب سے چھوٹا پیمانہ انگل یعنی انگلی کی چوڑائی مقرر کیا گیا۔ بارہ انگل کا ایک بالشت مانا گیا۔ بالشت سے وہ چوڑائی مراد لی گئی جو ہاتھ کا پنجہ پھیلانے پر چھوٹی انگلی کے سرے سے انگوٹھے کے سرے کے درمیان ہوتی ہے۔ ''ہندی شبد ساگر'' نے بالشت کو فارسی لفظ مانا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فارسی میں بالشت یا بالش سے تکیہ مراد لیا جاتا ہے۔ پنجے کی چوڑائی کے لیے سنسکرت میں ''و تس تی'' کا لفظ آتا ہے۔ غالباً اسی نے بعد میں بالشت کی شکل اختیار کی۔ دو بالشت کا ایک ہاتھ مانا جاتا تھا اور دو ہاتھ کا ایک گز۔ گز لکڑی کی چھڑی یا لوہے کی چھڑ کو کہتے ہیں۔ جس زمانے میں کارتوسوں کا رواج نہیں تھا اور بندوق کی نال میں بارود کی گولی وغیرہ بھر کر ڈاٹ لگائی جاتی تھی، اس گولی بارود وغیرہ کو ایک لوہے کی چھڑی سے کوٹ کوٹ کر اندر بٹھایا جاتا تھا۔ یہ چھڑ گز کہلائی تھی۔
اسی طرح سارنگی وغیرہ سازوں کو بجانے والی کمان کو بھی گز کہتے ہیں۔ تیر کی وہ سیدھی لکڑی جس میں نوک اور پر لگا کر تیر بنایا جاتا ہے، گز کہلاتی ہے۔ کپڑا وغیرہ ناپنے کے لیے عام طور پر لوہے کا گز استعمال کیا جاتا ہے جس پر نشان بنے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر نشان ایک گرہ کہلاتا تھا۔ گرہ رسی دھاگے وغیرہ میں لگائی جانے والی گٹھان کو کہتے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ گز کی غیر موجودگی میں، گز بھر لمبائی کی رسی کو بھی ناپنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور اسے سولہ برابر حصوں میں بانٹنے کے لیے بیچ بیچ میں گرہیں لگا دی جاتی تھیں۔ بعد میں لوہے کے گز میں بھی سولھویں حصوں کو گرہ ہی کہا گیا۔
زیادہ لمبے پیمانے کے لیے قوس کا پیمانہ استعمال کیا جاتا تھا۔ مرتب ''فرہنگ آصفیہ'' کا خیال ہے کہ یہ لفظ ''گوش'' تھا اور ''گوشبد'' یعنی گائے کی آواز کو ظاہر کرتا تھا لیکن دراصل کوس سنسکرت لفظ ''کروش'' کی بدلی ہوئی شکل ہے جس کے معنی چیخ یا پکار کے ہوتے ہیں (فارسی لفظ ''خروش'' سے مقابلہ کیجیے) اور یہ لفظ ''کروش'' سنسکرت میں فاصلے کے پیمانے کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا اور غالباً ''کروش'' کی ہی بنا پر فارسی میں کوس کے لیے لفظ ''کروہ'' اختیار کیا گیا۔ ظاہر ہے ''کروش'' سے ابتداء ً وہ فاصلہ مراد تھا جہاں تک کسی انسان کی پکار سنی جا سکے۔ ایک انگریز کو جسے سری لنکا میں کام کرنے کا موقع ملا تھا، یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ اس علاقے میں جنگلوں وغیرہ میں فاصلے کو دیکھ کر نہیں بلکہ سن کر متعین کیا جاتا تھا۔ سری لنکا میں چوتھائی میل کے لگ بھگ فاصلے کو کتّے کی آواز کا فاصلہ بتایا جاتا ۔ اس سے زیادہ فاصلے کو مرغ کی بانگ اور اس سے بھی زیادہ فاصلے کو ''ہو'' کی آواز جو کہ انسانی آواز کی نقل تھی، کے ذریعے بتایا جاتا تھا۔
سڑکوں پر فاصلے کے نشان لگانے کا کام اکبر کے زمانے میں کیا گیا اور ''آئین اکبری'' میں ایک کوس کو پانچ ہزار گز کے برابر بتایا گیا۔ انگریزوں کے زمانے میں دہلی کے قریب قائم کوس میناروں کے درمیان اوسطاً فاصلہ دو میل سے زیادہ ناپا گیا اور اس طرح موٹے طور پر ایک کوس کو دو میل کے برابر قرار دیا گیا۔
انگریزوں کے عہد میں ہمارے یہاں برطانوی پیمایش کے نظام کو اختیار کیا گیا۔ اس نظام کی بنیاد فٹ یعنی پیر تھا۔ اس کو بارہ حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصے کو انچ کہا گیا۔ لفظ ''انچ'' کا مطلب ہی بارھواں حصہ ہوتا تھا۔ تین فٹ کو ایک ''یارڈ'' یعنی چھڑی کہا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ انگلستان میں یارڈ کا ناپ بادشاہ ہنری اول کے ہاتھ کے ناپ کے برابر رکھا گیا تھا۔ ہندوستان میں گز کی پیمایش ہی تین فٹ مقرر کر دی گئی۔ زیادہ لمبے فاصلے کو فرلانگ اور میل کے ذریعے ظاہر کیا جانے لگا۔ فرلانگ سے وہ لمبائی مراد تھی جو دس ایکڑ رقبے کے مربع کھیت میں ایک سیدھ میں ایک بار میں کی گئی جُتائی سے بنی نالی کی ہو۔ فرلانگ کو میل کا آٹھواں مانا گیا جس سے ایک فرلانگ میں ٢٢٠ گز ہوئے۔ جہاں تک میل کا سوال ہے، یہ ایک ایسے لاطینی لفظ سے بنا ہے جس کا مطلب ہزار ہوتا ہے۔ قدیم روم میں ایک میل سے ایک ہزار دوہرے قدم کا فاصلہ مراد لیا جاتا تھا جو کہ موجودہ پیمایش کے اعتبار سے ١٤٨٠میٹر کے برابر تھا اور دہرا قدم پانچ فٹ سے کچھ زائد ہوتا تھا۔ رومن شہنشاہ آگسٹس سیزر نے روم کے چوک میں پہلا میل کا پتھر نصب کروایا تھا جس سے دوسرے مقامات کے فاصلے ناپے جاتے تھے۔ بعد میں مختلف مقامات پر میلوں کی پیمایش مختلف ہو گئی۔ انگلستان میں ملکہ الزبتھ اول کے عہد میں میل کی معیاری لمبائی ٧٦٠ گز طے کی گئی جو تقریبا ً ١٦٠٩ میٹر کے برابر ہوتی ہے۔ آج پیمایش کا اعشاری نظام دنیا کے بیشتر ملکوں کی طرح ہمارے یہاں بھی رائج ہے۔ یہ نظام فرانس کی رائل اکیڈمی آف سائنسز نے اٹھارھویں صدی کے آخر میں تیار کیا تھا۔ اس نظام کے تحت لمبائی کی اکائی کی حیثیت سے میٹر کو اختیار کیا گیا۔ میٹر کے لفظی معنی تو ناپنا ہیں، لیکن اعشاری نظام کے تحت ایک میٹر کو اس لمبائی کے برابر سمجھا گیا جو پیرس کو قطب شمالی سے جوڑتے ہوئے کرۂ ارض پر بنے دائرے کے اس حصے کے ایک کروڑویں حصے کے برابر ہو جو خط استوا اور قطب شمالی کے درمیان ہے۔
رقبہ ناپنے کے لیے ہندوستان میں بیگھا استعمال کیا جاتا تھا۔ اکبری بیگھے ٣٦٠ مربع الہی گز کا رقبہ ہوتا تھا جب کہ ایک الہی گز تقریباً ٣٣ انچ کا ہوتا تھا۔ بیگھے کا بیسواں حصہ بسوہ کہلاتا تھا۔ انگریزوں نے بعد میں تین بیگھوں کو ایک ایکڑ کے برابر مانا۔ ایکڑ ایک انگریزی لفظ کی شکل ہے جس کے معنی پہلے کھلی زمین کے ہوتے تھے لیکن بعد میں اس لفظ کو ایسی زمین کے لیے بولا جانے لگا جسے مینڈھ وغیرہ بنا کر گھیرا گیا ہو۔ بتایا جاتا ہے کہ جب بادشاہ ایڈورڈ اول کو زمین کے رقبے کو ناپنے کے لیے کسی مستقل پیمانے کی ضرورت ہوئی تو بادشاہ نے ایک جوڑی بیل سے دن بھر ایک کھیت جتوایا اور اس کی پیمایش کروائی اور اپنے فرمان کے ذریعے ایکڑ کی پیمایش چالیس بانس لمبائی اور چار بانس چوڑائی مقرر کی جو کہ بعد میں ٤٨٤٠ مربع گز طے ہوئی۔
انسان کو ناپ کے ساتھ ساتھ تول کی بھی ضرورت پڑی۔ چنانچہ اسے سامنے جو اشیا نظر آئیں ان ہی کی مدد سے اپنے پیمانے تیار کیے۔ چاول عام استعمال کی چیز تھی۔ اسے بہت کم مقدار میں تولی جانے والی کمیاب اور قیمتی اشیا کو تولنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ بعض دواؤں، کشتوں وغیرہ کی خوراک کی مقدار چاول کے حساب سے مقرر کی جاتی ہے۔ آٹھ چاول کی ایک رتی ہوتی۔ رتی لال رنگ کا ایک خوبصورت بیج ہوتا ہے جس کے سر پر کالے رنگ کا ایک دھبہ ہوتا ہے۔ اسے عام طور پر گھونگھچی یا گومچی بھی کہا کرتے ہیں۔ وزن کے لیے آٹھ چاول برابر ایک رتی مانی جاتی ہے رتی سے اوپر ماشے کا وزن ہوا کرتا تھا۔ ماش یعنی اُڑد کے دانے کو آٹھ رتی کے برابر سمجھتے تھے۔ اس کے بعد تولہ ہوتا تھا جو ظاہر ہے کہ تولنے کے لفظ سے گڑھا گیا تھا۔ ایک تولے میں بارہ ماشے ہوا کرتے تھے اور اکثر ایک کلدار روپیہ یعنی سرکای ٹکسال میں گڑھا ہوا روپے کا سکہ ایک تولہ وزن تولنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ہندوستان کے الگ الگ علاقوں میں الگ الگ وزن کے سیر ہوا کرتے تھے۔ انگریزوں کی عملداری میں اسی (٨٠) تولے کا سیر چلتا تھا۔ اور پھر چالیس سیر کا من ہوتا تھا۔ زبان کے ماہرین نے تحقیق کی ہے کہ ''من'' کا لفظ ہندوستان کے مغرب میں دور دور تک مختلف شکلوں میں بولا جاتا تھا۔ اس کی ابتدا غالباً عکادی زبان میں ہوئی تھی اور بابل میں بھی یہ لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ لفظ عربوں کے ہندوستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھنے کے دوران آٹھویں یا نویں صدی میں اس ملک میں پہنچا لیکن سنسکرت میں وزن کے لیے ایک لفظ ''منا'' ملتا ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ''من'' پہلے سے ہندوستان میں موجود تھا۔ پرتگالیوں نے ہندوستان پہنچ کر اس لفظ کو ''ماؤں'' کی شکل میں اختیار کیا جس سے انگریزوں نے MAUND بنا لیا۔ بعض علاقوں میں دو من کی ایک مانی بھی رائج تھی۔
انگریز اپنے ساتھ نظام پیمایش لائے جس میں چھوٹے پیمانوں میں ''گرین'' یعنی دانہ تھا اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ابتداء ً اس سے مراد جو کا دانہ ہوتا تھا۔ بڑا وزن پاؤنڈ تھا۔ ''پاؤنڈ'' کے لفظی معنی ''وزن'' کے تھے۔ ٢٢٤٠ پاؤنڈ کا ایک ٹن ہوتا تھا۔ ٹن دراصل شراب وغیرہ کے ایک بڑے ڈرم کو کہتے تھے۔ اب یہ لفظ انگریزی زبان میں تھوڑے املا کے فرق کے ساتھ TONNE اعشاری نظام کے تحت ایک ہزار کلو گرام وزن کے لیے بولا جاتا ہے۔ جہاں تک خود لفظ گرام کا تعلق ہے یونانی زبان میں گرام حروف تہجی میں سے کسی حرف کو کہتے ہیں۔ بعد میں اس سے کسی بھی قسم کی چھوٹی اکائی مراد لی جانے لگی اور اٹھارھویں صدی میں فرانس میں اسے وزن کی سب سے چھوٹی اکائی کی شکل میں اختیار کیا گیا۔ ''کلو'' یونان میں ہزار کے لیے آتا ہے اور جدید پیمانوں میں کلو گرام یا کلو میٹر سے ایک ہزار کلو گرام یا ایک ہزار میٹر مراد لیا جاتا ہے۔
پٹرول وغیرہ سیال چیزوں کی پیمایش کے لیے گیلن کا پیمانہ رائج تھا ۔ اس کے اصل معنی شراب کے جگ کے تھے لیکن یہ پیمانہ دھیرے دھیرے بڑھ کر ٤ء ٢٢٧ مکعب انچ کے برابر ہو گیا۔ آج کل لیٹر کا پیمانہ رائج ہے۔ لیٹر دراصل بحیرۂ روم میں واقع جزیرے سسلی کے ایک سکے کا نام تھا لیکن جب یہ لفظ یونانی سے لاطینی میں پہنچا تو ایک پیمانہ بن گیا اور ١٧٩٣ء میں فرانس میں اسے نئے اعشاری نظام میں برتن میں سیال چیز کو بھر کر ناپنے کے پیمانے کی اکائی شکل میں ایک بنیادی حیثیت دی گئی
وقت کو ناپنے کی بھی انسان کو ضرورت پڑی۔ ہندوستان میں دن رات کو ساٹھ گھڑی میں تقسیم کیا گیا۔ یہ تقسیم جیوتش کے حساب پر مبنی تھی۔ پھر دن رات کے آٹھ پہر ہوا کرتے تھے اور ہر پہر تین گھنٹے کا ہوتا تھا۔ پہر کے دوران پہریدار چوکسی پر رہتے اور ہر گھنٹہ پورا ہونے پر دھات کے بنے گھنٹے پر چوٹ دے کر یہ اعلان کرتے کہ وہ پہرے پر ہیں اور دوسرے یہ کہ وقت کیا ہوا ہے۔ ہر چوتھے گھنٹے پر گجر بجائی جاتی یعنی چار گھنٹوں کے ساتھ چار چوٹیں مزید لگائی جاتیں۔ اسی طرح آٹھ بجے آٹھ گھنٹوں کے ساتھ آٹھ مزید چوٹیں اور بارہ بجے بارہ گھنٹوں کے ساتھ بارہ چوٹیں مزید لگائی جاتیں اور اسے یہ اندازہ ہوتا رہتا کہ کب پہرہ بدلا جانا ہے۔
بابل کے لوگوں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ ایک دائرے کو چھ برابر حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ساٹھ ساٹھ کے چھوٹے حصوں میں اکائی کو تقسیم کرنے کا رواج ڈالا تھا۔ اسی بنا پر ایک گھنٹے کو پہلی بار ساٹھ حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصے کو لاطینی میںNUTA PRIMA PARSMI ' یعنی پہلا چھوٹا حصہ کہا گیا۔ مختصراً اس حصے کا نام ''منٹ'' پڑ گیا۔ جس کا مطلب صرف ''چھوٹا'' ہوتا ہے اور اسی وجہ سے عربی میں منٹ کا ترجمہ دقیقہ کیا جاتا ہے۔ ہر منٹ کو مزید ساٹھ حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے لاطینی میں اسےNUTA SECUNDA PARSMI یعنی دوسری بار چھوٹا حصہ کہا گیا۔ اس سے مختصراً سیکنڈ کا نام پڑ گیا جس کی بنیاد پر عربی میں سیکنڈ کا ترجمہ ثانیہ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں دن کا وقت انسان کی ضرورتوں کو زیادہ پورا کرتا ہے اس سے اس نے پورے چوبیس گھنٹوں کا نام ہی دن رکھ دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جیوتش کا مطالعہ اکثر جڑا رہا ہے۔ اس علم میں سات اجرام فلکی کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ اس بنا پر اکثر دنوں کے نام ان سات سیاروں وغیرہ کے نام پر رکھ کر سات دنوں کا ایک ہفتہ مقرر کیا گیا۔ جیسے ہندوستان میں اتوار یا رویوار سورج سے ، سوم وار سوم یعنی چاند سے، منگل وار منگل یعنی مریخ سے، بدھوار بدھ یعنی عطارد سے، برہسپت وار، برھسپتی یعنی مشتری سے۔ شکروار شکر یعنی زہرہ سے اور شنی وار شنی یعنی زحل سے منسوب ہیں۔ مہینے کا تصور ماہ یعنی چاند سے ہے۔ چاند کی گھٹتی بڑھتی شکلوں کا ایک دور جس عرصے میں ختم ہوتا تھا اسے ایک ماہ کہا گیا لیکن بعض حالات زیادہ طویل عرصے میں دوبارہ نمودار ہوتے ہیں جیسے موسم۔ مثلاً ایک برسات کے بعد دوسری برسات آنے میں بارہ ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ اس کو برس کہا گیا۔ ''برس'' کا لفظ سنسکرت لفظ ''ورش'' سے متعلق ہے اور ''ورش'' ، ''ورشا'' سے نکلا ہے۔
کبھی کبھی بعض چیزوں کو ایک خاص تعداد یا مقدار میں اکٹھا کر کے ان کے بارے میں بات کرنے کی بھی انسان کو ضرورت پڑتی ہے۔ قدیم انسان کے پاس گنتی کرنے کا سب سے آسان ذریعہ انگلیاں تھیں۔ چنانچہ ہمارے یہاں ''بیسا'' اکثر استعمال ہوتا تھا جس کا مطلب تھا ہاتھوں اور پیروں کی کل بیسوں انگلیاں۔ جب ایک سے زیادہ بیس بیس چیزوں کے مجموعے کی بات کرنا ہوتی تو اس کے لیے ایک کوڑی یا کنکر یا کوئی اور چیز یادداشت کے لیے الگ کر کے رکھ دی جاتی۔ اس لیے بعض اوقات بیس چیزوں کی ایک کوڑی بھی کہی جاتی۔ یورپ وغیرہ میں بیس کے لیے کہیں ایک نشان بنا دیا جاتا جیسے لکڑی میں چاقو سے ایک نشان بنا دیتے۔ اس نشان کو اسکور کہا جاتا تھا اور اسکور سے کبھی بیس چیزوں کا مطلب بھی لیتے تھے۔ اب یورپ سے لایا گیا درجن کا لفظ بھی بہت استعمال ہوتا ہے۔ درجن بارہ کے لفظ سے نکلا ہے۔ یورپ میں بارہ کو جہاں حساب و کتاب میں تین اور چار دنوں سے تقسیم ہو جانے کی وجہ سے اہمیت حاصل رہی ہے وہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ خاص شاگردوں یا حواریوں کے سبب بارہ کو ایک متبرک عدد بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔ بارہ درجن کا ایک گرس ہوتا ہے ۔ گرس کا لفظ فرانسسیسی لفظ گراس سے نکلا ہے جس کا مطلب بہت سا یا ڈھیر سا ہوتا ہے۔ بارہ گرس کا ایک مہاگرس یا گریٹ گراس سمجھا جاتا ہے۔
کاغذ کے شمار کے لیے چوبیس تختوں کا ایک دستہ اور بیس دستوں کا ایک رم مانا جاتا تھا۔ کاغذ کی ایک شیٹ کو تختے کا نام دیا جاتا تھا۔ کاغذ کی لگدی کو کپڑا لگے فریموں پر پھیلا کر یہ تختے بنائے جاتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ فریموں پر الگ الگ شیٹوں کی شکل میں بنائے جانے کی وجہ سے انھیں تختہ کہا جاتا بلکہ لکھنے کی مشق کرنے کے لیے جو بورڈ استعمال کیے جاتے تھے ان کے لیے پہلے سے تختی کا لفظ بولا جاتا تھا۔ کاغذ کے تختوں میں موڑنے کی وجہ سے شکنیں نہ پڑیں اس لیے انھیں لپیٹ کر رول بنا لیا جاتا تھا جس سے کاغذ کو مٹھی میں پکڑنے میں آسانی ہوتی تھی۔ اس ایک مٹھا کاغذ کو دستے کا نام دیا گیا۔ رم کا لفظ Ream انگریزی سے آیا تھا۔ یہ انگریزی لفظ عربی لفظ رزم سے بنا تھا جس کا مطلب ڈھیر یا انبار ہوتا ہے۔
بشکریہ ڈاکٹر سید حامد حسین
Post a Comment