Two great conscious revolutions
In the mid-sixteenth century, the Polish mathematician Nicholas Copernicus proposed a heliocentric theory of the universe. According to this theory, the earth is not the center of the universe. Earth is one of the planets orbiting the Sun, and the Sun itself is a star just like any other star in the universe.
Before that, most people believed in the geocentric model, according to which the earth (and the man on earth) was considered the center of the universe. This was the first revolution of scientific consciousness that changed the way man thought about the universe. Because the revolution was of consciousness, it faced resistance. But today we know with convincing evidence that Copernicus was right.
The Second Revolution of Scientific Consciousness came three centuries later thanks to Charles Darwin.
Through his Theory of Evolution, Darwin stated that man, like all other living things, is the result of evolution in this world. This conscious revolution also faced a fierce opposition which continues to this day. But even Darwin did not know the evidence we have today for the theory of evolution.
Unless we understand the universe and our place in the universe, we cannot properly use the forces in the universe to our advantage. And the scientific method is very important to achieve this goal. One of the rarest attributes of man is to move forward by acknowledging the facts on scientific grounds.
دوعظیم شعوری انقلاب
سولہویں صدی کے وسط میں پولینڈ کے ریاضی دان، نکولس کوپرنیکس نے کائنات کے بارے میں ہیلییوسینٹرک(heliocentric) نظریہ پیش کیا۔ اس نظریےکے مطابق زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے۔ زمین سورج کے گرد گھومنے والے سیاروں میں سے ایک سیارہ ہے اور سورج بذاتِ خودکائنات میں موجود دوسرے ستاروں کی طرح ہی ایک ستارہ ہے۔
اس سے پہلے اکثرلوگ جیوسینٹرک(geocentric) ماڈل پر یقین رکھتے تھے، جس کے مطابق زمین (اور زمین پر موجود انسان) کو کائنات کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ یہ تھا سائنسی شعور کا پہلا انقلاب جس نےکائنات کے بارے میں انسان کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا۔ چونکہ انقلاب شعور کا تھا اس لیے اسےمزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن آج ہم پکے شواہد کے ساتھ جانتے ہیں کہ کوپرنیکس صحیح تھا۔
سائنسی شعور کادوسرا انقلاب تین صدیوں کے بعدچارلس ڈارون کی بدولت آیا۔ ڈارون نے اپنی تھیوری آف ایولوشن کے ذریعے یہ بتایا کہ انسان، باقی تمام جانداروں کی طرح، اس دنیا میں ہونے والے ارتقاء کا ہی نتیجہ ہے۔ اس شعوری انقلاب کو بھی ایک شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جو آج بھی جاری ہے۔ لیکن آج تھیوری آف ایولوشن کے حق میں جو شواہد ہمارے پاس موجودہیں ان کا تو ڈارون کو بھی علم نہیں تھا۔
جب تک ہم کائنات اور کائنات میں اپنے مقام کو نہیں سمجھ لیتے تب تک کائنات میں موجود قوتوں کو اپنے فائدے کے لیے مناسب طریقے سے استعمال نہیں کر سکتے۔ اور اس مقصد کو حاصل کرنے کےلیے سائنسی طریقہ کار بہت ضروری ہے۔ سائنسی بنیادوں پرحقائق کو تسلیم کرکے آگے بڑھ جانا انسان کی نایاب ترین صفات میں سے ایک صفت ہے۔
آداب تحریر جناب یوُسف حُسین صاحب
إرسال تعليق