English Content
حضرت نوح اور انکی عمر کا حساب کت
سائنسی طور پر یہ بات کنفرم ہے کہ انسان کی عمر دور قدیم میں کافی کم تھی اور ابھی پچھلی ایک دو صدی قبل ہی اچھی خوراک، جینیٹک اثرات اور صحت مندانہ زندگی کے زیر اثر اس میں ایک لمبا اضافہ ہوا ہے۔ پہلے دور قدیم میں انسانوں کی اوسط عمر سائنسدانوں کے محتاط اندازے کے مطابق 30 سے 35 سال ہوا کرتی تھی ، زیادہ سے زیادہ 45 سال ہی ہوا کرتی تھی، اس سے زیادہ نہیں۔ کیونکہ آج کے مقابلےمیں قدیم انسان کی خوراک بھی کم تھی اور اسکو آج کی طرح جدید میڈیکل سہولتیں بھی میسر نہیں تھیں۔ یاد رہے کہ قدیم انسانی مخلوق سے مراد موجودہ زمانے سے قریبا لاکھ ڈیڑھ لاکھ سال قبل کے انسان کی مراد ہے، کیونکہ جدید انسانوں مطلب ہومو سیپنز کی موجودگی زمین پر موجودگی کا سائنٹفک ثبوت 3 لاکھ سال سے اوپرموجود ہے، جو افریقہ سے دریافت ہونے والے کچھ فاسلز پر مشتمل ہے۔
اب آتے ہیں اس موضوع پر جو دراصل اس پوسٹ کا اصل مدعا ہے۔ اور وہ یہ کہ اکثریت مذہبی حلقوں سے اس بات کا انکار کیا جاتا ہے کہ یہ سائنسی فیکٹ غلط ہے کہ انسان کی عمر میں حالیہ اضافہ ہوا ہے، اور قدیم انسان کی عمر بہت زیادہ ہوتی تھی۔ اسکے لیے مذہبی طبقے خصوصا مسلمانوں کی طرف سے یہ آواز بڑی شد ومد سے اٹھائی جاتی ہے اور یہ اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لیے قرآن کی یہ آیات پیش کرتے ہیں
قرآن کریم میں سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 14 میں حضرت نوح کی عمر کو طوفان سے پہلے 950 سال بتایا گیا ہے۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُـوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِـيْهِـمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا ۖ فَاَخَذَهُـمُ الطُّوْفَانُ وَهُـمْ ظَالِمُوْنَ (14)
ترجمہ: اور ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا پھر وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے، پھر انہیں طوفان نے آ پکڑا اور وہ ظالم تھے۔
ہزار میں پچاس کم کا مطلب 950 سال۔
اب اگر اس آیت پر تھوڑا غور فکر کرلیا جائے، تو اسکے مطابق اس آیت میں دو الفاظ سَنَةٍ اور عَامًا قابل غور ہیں۔
سَنَةٍ کے بنیادی معنی زمانہ پر دلالت کرتے ہیں۔ جیسے عرب کہتے تھے سنھت النخله یعنی کھجور پر کئی سال گزر گئے ۔ اس ہی طرح وہ جانور جو کنویں کے اردگرد پانی نکالنے کے لئے گھومایا جاتا تھا اس کو السنه کہتے تھے۔ اس ہی سے مختلف اجرام فلکیات کی مخصوص گردش جو دن،ماہ،سال معلوم کرنے کے لیے استعمال کی جاتیں ہیں اس پر اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر وقت کی پیمائش کا پیمانہ زمین کی گردش سورج کے گرد ہو تو یہ گردش 365 دنوں میں مکمل ہوتی ہے اس لیے یہ ایک السنه ہو گا ۔ اس ہی سے اس کا ایک مطلب سال بھی ہے۔
اس ہی طرح اگر وقت کی پیمائش کا پیمانہ چاند کی گردش زمین کے گرد ہو تو یہ گردش 30 دنوں میں مکمل ہوتی ہے اس وجہ سے یہ بھی ایک سنه ہو گا۔ اس لیے اس کا اطلاق مہینے پر بھی ہے۔ اس ہی طرح اگر وقت کی پیمائش کا ہمارا پیمانہ زمین کا اپنے ہی محور پر گھومنا ہو تو ایک سنه پھر ایک دن ہو گا۔ جو اجکل چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔
مطلب یہ کہ حضرت نوح کی عمر کے بارے میں یہ کہنا کہ صرف 950 سال ہی ہے، یہ عربی کے حساب سے غلط ہے اور اسکے معنے 950 مہینے، 950 دن بھی ہوسکتا ہے۔ اب اگر آیت مذکورہ میں نوح کی عمر ہم 950 سال نہیں بلکہ 950 مہینے لیتے ہیں، تو یہ بات زمانہ قدیم سے طے ہے کہ سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ ایک سادہ سی حسابی تقسیم کے مطابق 950 مہینے قریبا 79 سال بنتے ہیں ، اسکو اپ اپنی سہولت کے لیے 80 سال بھی سمجھ سکتے ہیں۔
950/12 = 79.167 ≈80
اسی طرح اگر 950 دنوں کی بات صحیح سمجھی جائے تو چونکہ ایک سال میں قریبا 365 دن ہوتے ہیں، تو اسطرح نوح کی کل عمر 2سال چھ مہینے بنتی ہے (950/365 =2.6 ) ، جو ظاہر ہے درست نہیں ہوسکتی، الا یہ کہ 950 کا ہندسہ نوح کا اپنی قوم میں رہنے کا عرصہ بتایا گیا ہو ۔ اور دنوں کے حساب سے یہ عرصہ دو سال چھ مہینے یا ڈھائی سال بنتے ہو۔ بہرحال اس آیت میں کوئی واضح بات نہیں ثابت ہوتی، اور قدیم زمانے سے حضرت نوح کی عمر کے بارے میں اختلاف قائم ہے، مختلف مفکرین نے مختلف عمر انکی بتائی ہیں۔ بعض اسلامی مفکرین نے تو نوح کی عمر 2500 سال تک بھی بتائی ہے، جو ایک بہت بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی ہے۔ (ایک اسی موضوع پر مفتی ابو لیث کی وڈیو موجود ہے، جسکا لنک میں کمنٹس میں دیتا ہوں، لیکن یہ وڈیو انگلش میں ہے)
ایک بات یاد رکھنے کی ہے وہ یہ قرآن میں حضرت نوح کی عمر کے بارے میں تو بتایا گیا ہے کہ 950 (سال/مہینے/دن) تھی، لیکن اسکے متعلق ایک آیت بھی نہیں کہ حضرت نوح کے زمانے میں سبھی انسانوں کی عمر اتنی ہی نوح جتنی لمبی ہوا کرتی تھی، یعنی ہزاروں سال۔ کوئی ایک آیت اس چیز کو نہیں بتاتی کہ تمام انسان ہی اتنی لمبی عمریں پایا کرتے تھے۔
اب سائنس جو بات کہتی ہے کہ کہ انسان کی اوسط عمر قدیم زمانے میں 35/45 سال ہوا کرتی تھے ، تو یہ فیکٹ مختلف سائنسی بنیاد پر درست مانا جاتا جیسے ریڈیو کاربن ڈیٹنگ جو پچھلے پچاس ہزار قبل کے جانداروں کی عمر نکالنے میں کافی مدد دیتا ہے، اب ہمیشہ یہ عمر کا اندازہ ایک اوسطا دیکھا جاتا ہے، یعنی یہ نہیں کہ اگر کوئی انسانی گروہ 100 افراد پر مشتمل ہو تو ان میں سے ہر ایک فرد کی عمر 35 ہی ہوگی (یا چالیس ہوگی) بلکہ کسی کی عمر 35 سے کم بھی ہوسکتی ہے تو کسی کی عمر 45 سے بھی کراس کرسکتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اوسط دیکھی جائے تو یہی عمر بنتی ہے۔ اوسط عمر نکالنے کے لیے تمام انسانوں کی عمروں کو جمع کریں اور جتنے لوگ ہونگے ان سے تقسیم کردیں۔
اب اگر ہم حضرت نوح کی عمر 950 سال ہی بلفرض محال فرض کریں ا ور اسی اوسط عمر کے فارمولے کے حساب سے اس وقت کے انسانوں کی اوسط عمر معلوم کریں تو اسکا حساب کچھ ایسے بنتا ہے
فرض کیا کہ حضرت نوح جس قبیلے میں رہتے تھے، اس میں 100 افراد تھے۔ ان میں نوح کی عمر 950 سال تھی، باقی 99 لوگوں کی عمر ہم 35 ہی (اوسطا) تصور کرلیتے ہیں۔
اب اوسط کے فارمولے کے مطابق
حضرت نو ح کی عمر = 950
99 لوگوں کی عمر = 99 × 35 = 4415 سال
کل مجموعہ 950 + 3465 =4415بنتا ہے۔
کل افراد 1 + 99 = 100
اب اس مجوعے کو 100 سے تقسیم کیا جائے تو
100 افراد کی اوسط عمر 44.15 سال بنتی ہے۔ جو سائنسی ڈیٹا کے عین مطابق ہے۔
اسطرح حضرت نوح کی عمر 950 سال فرض کرنے کے باوجود بھی اوسط عمر پر فرق نہیں پڑتا اور وہ انسان کی اوسط عمر 35/45 سال ہی درمیان ہی رہتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ صرف 100 افراد سے اوسط عمر کا حساب نکالا گیا تھا۔ اصلی قدیم انسانی قبیلے میں 100 سے کہیں زیاہ لوگ موجود ہوتے تھے اور ایک رف حساب کتاب سے ایک ایک قبیلے میں بعض اوقات ہزاروں کی تعداد میں انسانی آبادیاں ہوتی تھیں۔ اس اعتبار سے تو اوسط عمر مزید گھٹ سکتی ہے۔
یہ اوسط عمر کا پیمانہ اس وقت غلط ثابت ہوسکتا ہے جب ایک 100 کی آبادی کے رہنے والے تمام کے تمام افراد ہی 1000 سال والے ہوں۔ لیکن جتنی بھی مذہبی ٹیکسٹ کی کتابیں ہیں، خصوصا اسلامی منبع فکر والی، تو اس میں نوح کی ہی اتنی لمبی عمر کا تذکرہ ملتا ہے، باقی لوگوں کی عمر کے بارے میں یہ کتابیں خاموش ہیں۔ اس لیے انکی اوسط عمر 35/45 سال فرض کرنے میں ایسی کوئی برائی نہیں، الا یہ کہ ثبوتوں کے ساتھ یہ ثابت کردیا جائے کہ نہیں سبھی حضرت نوح کے زمانے کے لوگ لمبی عمروں والے ہوا کرتے تھے۔
Post a Comment